آخر کار امریکہ نے اپنی عالمی دہشت گردی کا پردہ اٹھاتے ہوئے تل ابیب سے یروشلم کو اپنا سفارت خانہ منتقل کردیا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کی فلسطینیوں پر ظالمانہ کارروائیوں اور فلسطینی علاقوں سے انہیں نکال کر یہودی آبادیوں کو بسانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے مزید درندگی اور ظلم و بربریت کرنے کی راہیں ہموار کیں ہیں۔ ٹرمپ کی دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر مذمت کی جارہی ہے اس کے باوجود امریکی صدر اپنے فیصلہ پر اٹل ہیں۔ امریکی سفارت خانہ کی منتقلی کے خلاف احتجاج کرنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج اپنی ظالمانہ کارروائی انجام دیتے ہوئے بے تحاشہ فائرنگ کی ۔اسرائیل کی اس ظالمانہ کارروائی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے پرامریکہ نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کی سلامتی کونسل کی تحقیقات کی درخواست بھی روک دی ہے جس پر برطانیہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ فرانس نے طاقت کے استعمال سے گریز کا مطالبہ کیا ہے۔ترکی نے امریکہ اور اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کی خون ریزی روکنے اور ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی اپیل کی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق جنوبی افریقہ نے تل ابیب اور ترکی نے اسرائیل اور امریکہ سے سفیر واپس بلالیے، سعودی عرب نے بھی اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔امریکہ غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کی اقوام متحدہ کی تحقیقات میں رکاوٹ بن گیااور غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کی سلامتی کونسل کی تحقیقات کی درخواست امریکہ نے بلاک کر دی۔سلامتی کونسل نے اسرائیل غزہ سرحد پر شہریوں کے قتل عام کی تحقیقات کامطالبہ کیا تھا، تاہم غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی تاخیر کا شکار ہوگیا۔کویت نے ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی درخواست دی تھی،62 فلسطینی شہید اورتقریباًتین ہزار سے زائد زخمی ہیں۔مظاہروں کے دوران فلسطینیوں نے ٹائر جلائے اور اسرائیلی فوجیوں پر پتھرا ؤکیا اور پیٹرول بم پھینکے جبکہ فوجی نشانے بازوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق 14؍ مئی کو ہزاروں فلسطینی غزہ کی مشرقی سرحد پر جمع ہوئے اور حق واپسی مارچ شروع کیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی فوج نے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینی مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے ان پر آتشیں گولیاں چلائیں۔ زخمیوں میں 225بچے، 80خواتین،12صحافی، 17طبی امدادی کارکن شامل ہیں۔54کی حالت انتہائی خطرناک،76 کی خطرناک اور 1300 کو درمیانے درجے کے زخم آئے ہیں۔90 فلسطینیوں کو سر اور گردن میں گولیاں ماری گئیں جبکہ 192فلسطینی مظاہرین کے جسم کے بالائی حصے کو نشانہ بنایا گیا۔دوسری جانب فلسطین میں اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملوں کی پوری دنیا میں شدید مذمت کی جارہی ہے اس کے باوجود نہ تو امریکہ پر کوئی اثر پڑا ہے اور نہ ہی اسرائیل پر۔سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے جس میں غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے وحشیانہ تشدد پرغور کیا جائیگا۔ادھر فلسطینی صدر محمود عباس نے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے قتل عام کو اسرائیل کی بربریت قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے قتل عام کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔فلسطینی صدر محمود عباس نے صدر ٹرمپ کے سفارتخانے کو منتقل کرنے کے فیصلے کو’صدی کا تھپڑ‘قرار دیا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردغان نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی او ریاستی دہشت گردی کررہا ہے،اسرائیل ایک دہشت گرد ملک ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مقبوضہ بیت المقدس کا مشرقی حصہ فلسطینیوں کا اٹوٹ انگ اور دار الحکومت ہے۔روس، مصر، ترکی، قطر اور اردن نے بھی امریکی سفارت خانے کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کی سخت مذمت کی ہے۔ان ملکوں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے یہ فیصلہ کرکے امن عمل کو تباہ کر دیا، فرانس اور برطانیہ نے بھی فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی مذمت کی ہے۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق تنظیم کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فائرنگ سے فلسطینیوں کے جانی نقصان کا عالمی برادری نوٹس لے اور ذمہ داروں کو انجام تک پہنچانا چاہیے۔ادھر غزہ سرحد پر احتجاج کے دوران شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعدادمیں اضافہ ہورہا ہے، یہ ہلاکتیں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ہوئی ہیں، ان ہلاکتوں کے حوالے سے14؍ مئی کے روز کو، 2014 میں غزہ اور اسرائیل جنگ کے بعد سب سے ہلاکت خیز دن قرار دیا جا رہا ہے،فلسطینی صدر محمود عباس نے سانحے پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ ادھر ایران میں بھی اسلامی ملکوں کی انٹر پارلیمنٹری یونین کی فلسطین کمیٹی نے بیت المقدس کی مرکزیت میں ایک آزاد فلسطینی مملکت کے قیام اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی پر زور دیا ہے۔ ایرانی خبر رساں ادارے کے مطابق اسلامی ملکوں کی انٹرپارلیمنٹری یونین کی فلسطین کمیٹی کا ہنگامی اجلاس تہران میں ہوا۔ اجلاس کے اختتامی بیان میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے امریکی اقدام کی مذمت کی گئی۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلامی ملکوں کی انٹرپارلیمنٹری یونین کی فلسطین کمیٹی سرزمین فلسطین سے اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ختم کرانے کیلئے فلسطینی عوام کی جد وجہد، فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی اور بیت المقدس کی مرکزیت میں ایک آزاد فلسطینی مملکت کے قیام کی حمایت کا اعلان کرتی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ امت اسلامیہ کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے اختلافات کوبھلا کر اور عالم اسلام کی طاقت و توانائی اور وسائل و ذرائع کا استعمال کرکے فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی بازیابی کی کوشش کریں۔بیان میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہا گیا ہے کہ صیہونی فوجیوں کے ہاتھوں مظلوم اور نہتے فلسطینی عوام کے قتل عام کی تحقیقات کرائے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق مجرموں اور قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ بیان میں فلسطین کمیٹی نے عالمی برادری سے بھی کہا ہے کہ غزہ کا زمینی، ہوائی اور سمندری محاصرہ ختم کرنے کے لئے غاصب اسرائیلی حکومت پر دبا ؤڈالے اور غزہ جانے والی تمام گذرگاہوں کو کھلوانے کیلئے اپنی کوشش بروئے کارلائے۔عرب لیگ نے امریکی سفارت خانے کی مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے امریکی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرنے اور خوشی منانے والے ممالک کو شرمناک عمل قرار دیا ہے جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق عرب لیگ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ اقدام بین الاقوامی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔ دریں اثنا فرانس اور اردن نے بھی اس امریکی اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ملیشیاء میں مہاتر محمد کی اقتدار پر واپسی
مہاتر محمد نے 92برس کی عمر میں دوبارہ اقتدار حاصل کرلیا۔ ملیشیاء کے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد انہوں نے اپنے دوست بنے دشمن انور ابراہیم کو جلد سے جلد رہا کرنے کا و عدہ کیا ہے۔ انور ابراہیم کو اقتدار کے غلط استعمال اور غیر فطری جنسی فعل کے الزامات کے تحت پانچ سال کی قید ہوئی ہے۔ شاہ سلطان محمد بلیجم نے ابراہیم کو معاف کردینے کا اعلان کیا ہے، جیسے ہی معافی مل جائے گی انور ابراہیم دوبارہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں گے۔ مہاتر محمد نے 22سال تک طویل عرصہ ملیشیاء میں حکومت کی تھی۔ اب دنیا کے معمر ترین منتخب لیڈر بن گئے ہیں وہ دو تین سال تک اس عہدہ پر فائز رہیں گے اور توقع ہے کہ انور ابراہیم کو اقتدار حوالے کردیں گے۔
سعودی عرب کے ہاسپٹلوں میں 90فیصد تارکین وطنوں کی خدمات
سعودی عرب کی شاہی حکومت اپنے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے کیلئے تارکین وطنوں کو انکے اپنے ملک واپس لوٹ جانے کے لئے کئی طرح کے اقدامات کررہی ہے کبھی لیبر کارڈ کی فیس میں بے تحاشہ اضافہ کیا تو کبھی فیملی کو رکھنے کیلئے اقامہ کی ماہانہ فیس لازم کردی گئی ہے اس کے علاوہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ ہزاروں کی تعداد میں ہندو پاک اور دیگر ممالک کے تارکین وطن واپس لوٹنے پر مجبور ہوگئے ۔ اس کے باوجود آج بھی سعودی عرب کی وزارت صحت کی ایک رپورٹ کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ سعودی عرب میں آج بھی ہاسپٹلوں میں سعودی اسٹاف کا فیصد تناسب صرف 10%ہے۔ سعودی وزارت صحت کے مطابق2017 کے آخر میں نجی ہسپتالوں اور ہیلتھ سینٹرز میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کی تعدادکل عملے کا 90 فیصد ہیں جن میں ڈاکٹرز، نرسیں اور فارماسسٹ سب شامل ہیں۔ سعودی ذرائع ابلاغ نے وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعدادوشمار میں واضح کیا ہے کہ نجی ہسپتالوں اور ہیلتھ سینٹرز میں کام کرنے والے سعودیوں کی تعداد 12891پائی گئی۔مجموعی تعداد ایک لاکھ 24 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ نجی سپتالوں اور ہیلتھ سینٹرز میں کل طبیب 33840ہیں ان میں 92فیصد غیر ملکی ہیں۔ ان میں غیر ملکی ڈاکٹروں کی تعداد 30827اور سعودی ڈاکٹروں کی تعداد 3013 ہے۔ غیر ملکی ڈینٹسٹ کی تعداد 9199اور سعودی ڈینٹسٹ کی تعداد 1221ہے۔ نجی اسپتالوں میں نرسوں کی مجموعی تعداد 45895ہے ان میں 94فیصد غیر ملکی (43216)اور سعودی نرسوں کی تعداد 2679 ہے۔ فارماسسٹس بھی سعودیوں کے مقابلے میں غیر ملکی زیادہ یعنی ان کی تعداد 21021ہے جبکہ سعودی فارماسسٹ 1134ہیں۔ سعودی عرب کے نجی اسپتالوں اور ہیلتھ سینٹرز میں امدادی طبی عملے کی تعداد 22001ہے ان میں سے 16068غیر ملکی اور 5933سعودی ہیں۔اس طرح اب دیکھنا ہیکہ کیا سعودی عرب میں شاہی حکومت ہاسپٹلوں میں موجود اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کی خدمات کا اعتراف کرتی ہے یا پھر انہیں بھی نکالنے کے لئے سعودیوں کو جلد از جلد تربیت حاصل کرنے کی طرف توجہہ دلاتی ہے۔
ترکی انتخابات میں صدارتی امیدواروں کی فہرست جاری
ترکی کے اقتدار پر مستقبل میں کون فائز ہوگا اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اتناضرور ہے کہ ترکی کو جس طرح رجب طیب اردغان نے معاشی استحکام بخشا ہے اور ان کی پالیسیوں کے نتیجہ میں ترکی عالمی سطح پر پھر سے ایک مرتبہ نمایاں نظر آنے لگا ہے۔ ترکی میں صدارتی انتخابات کا اعلان کردیا گیا ہے۔ ترکی کے ہائی الیکشن کمیشن نے صدارتی امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی ہے۔ ترک خبررساں ادارے کے مطابق سرکاری گزٹ میں شائع شدہ ہائی الیکشن کمیشن کے فیصلے میں 24؍جون کو متوقع صدارتی اور 27؍ویں ٹرم عام انتخابات میں شامل ہونے والے صدارتی امیدواروں کے ناموں کا حتمی اعلان کر دیا ہے۔ہائی الیکشن کمیشن کے 9؍مئی کی صدارتی انتخابات کے عبوری امیدوار فہرست پر 11؍مئی تک کئے جانے والے اعتراضات کا ہائی الیکشن کمیشن کی طرف سے جائزہ لیا گیا تھا اور ان کی تردید کا فیصلہ کیا گیا۔فہرست میں شامل صدارتی امیدواروں میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے مشترکہ امیدوار رجب طیب اردغان مرمارا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ری پبلکن پیپلز پارٹی سے محرم انجے الو داع یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔اِی پارٹی سے پارٹی چائیر مین میرال آق شینر، مرمارا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے صلاح الدین دیمیر تاش انقرہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔سعادت پارٹی سے پارٹی چیئر مین تیمیل کرم اﷲ اولوکٹوریا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔وطن پارٹی سے پارٹی چیئر مین دوعو پیرینچیک انقرہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ان تمام امیدواروں میں رجب طیب اردغان کے ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہیکہ وہ پھر سے ایک مرتبہ ترکی کے صدر کی حیثیت سے کامیابی حاصل کرلیں گے اگر وہ اس مرتبہ بھی کامیابی حاصل کرلیتے ہیں تو یہ ترکی کی معیشت کے لئے مزید بہتر موقع ہوگا اور عالمی سطح پر بھی ترکی نے رجب طیب اردغان کی حکمرانی میں نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے اگر دیکھنا ہے کہ ترکی کے عوام رجب طیب اردغان کو کتنا چاہتے ہیں اور انہیں اقتدار پر فائز رکھنے کے لئے کتنے فیصد ووٹ ملتے ہیں۔
میاں نواز شریف کا ممبئی بم دھماکہ پر بیان اہمیت کا حامل
پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے 12؍ مئی کو انگریزی روزنامہ ڈان کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ عسکریت پسند تنظیمیں فعال ہیں۔ انہیں غیر ریاستی عناصر کہا جاتا ہے، کیا ہم انہیں اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ سرحد پار جاکر ممبئی میں 150افراد کا قتل کریں؟ نواز شریف ممبئی حملوں سے متعلق اپنے ریمارکس پر قائم ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیمیں جس طرح ملک و بیرون ملک دہشت گردانہ سرگرمیوں کے ذریعہ عام بے قصور شہریوں کو نشانہ بنارہی ہے اس کے خلاف پاکستانی حکومت ہو کہ ہندوستانی حکومت ، انہیں سخت سے سخت سزائیں دینی ہوگی۔ نواز شریف کے اس انٹرویو کے بعد پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا کہنا ہیکہ ممبئی حملوں کے حوالے سے مقامی اخبار میں شائع ہونے والا نواز شریف کا حالیہ بیان غلط اور گمراہ کن ہے۔ پاکستان نیشنل سیکیوریٹی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم، وزیر دفاع، وزیر خزانہ ، قومی سلامتی کے امور کے مشیر لیفٹینیٹ جنرل ریٹائر؛ ناصر جنجوعہ اور اعلیٰ ترین عسکری حکام نے شرکت کی ۔ وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اس اجلاس میں کمیٹی کے اراکین نے متفقہ طور پر ان الزامات کو رد کیا اور اس کی مذمت کی ۔ اگر نواز شریف کے بیان کو صحیح انداز میں دیکھا جائے تو یہ پاکستان اور ہندوستان دونوں کے لئے اہم ہے اور یہ دونوں ممالک کے حکمرانوں اور فوجی قیادت کو دعوت دیتا ہے کہ وہ ان ممالک میں موجود دہشت گردوں کو ٹھکانے لگانے اور انہیں مزید دہشت گردانہ کارروائیوں سے روکنے کے لئے لائحہ عمل تیار کریں اوراسی طرح دونوں ممالک مل جل کر دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے اہم رول ادا کرسکتے ہیں
0 Comments