گزشتہ دنوں چند ایسے بیانات ،تقریبات جن میں اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کا روشن چہرہ دیکھانے کی کوششیں کی گئیں تومیں یہ سوچنے پر مجبور گیاکہ کیا حقیقی ترقی کے لئے ایسے کاموں کی وطن عزیز میں کوئی گنجائش ہے بھی یا نہیں بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ نے جہاں کروڑوں مسلمانوں کے دل جیتے وہیں وطن عزیز کا روشن چہرہ دیکھانے کے دعویداروں کی بہت بڑی تعداد کو مایوسی اور افسردگی نے آن گھیرا قارئین کرام !پہلے ایک اہم فیصلہ کے بارے خبر جوکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ہوا،اسلام آباد ہائی کورٹ نے رمضان المبارک میں لاٹری، جوا اور سرکس پر مشتمل پروگرامز پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سحر افطار ٹرانسمیشن میں اچھل کود اور دھمال نہیں چلنے دیں گے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے رمضان ٹرانسمیشن اور مارننگ شوز کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کیس کی سماعت کی عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے رمضان المبارک کے دوران لاٹری ،جوا اور سرکس پر مشتمل پروگرامز پر پابندی عائد کردی ہائیکورٹ نے وزارت اطلاعات، وزارت داخلہ اور پیمرا کو عدالتی ہدایات پر عمل کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تمام چینلز اس بات کو یقینی بنائیں کہ پروگرام کے میزبان اور مہمان کی طرف سے رمضان المبارک کے تقدس پر سمجھوتہ نہ ہو، رمضان میں تمام چینلز پانچ وقت مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی اذان نشر کریں، وزارت اطلاعات، داخلہ کے سیکرٹریز اور چیئرمین پر مشتمل کمیٹی رمضان کے پہلے عشرے کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ نشر ہونے والے 10 فیصد غیر ملکی مواد میں ریاست اور اسلام کیخلاف چیزوں کی مانیٹرنگ ہونی چاہیئے، رمضان المبارک سے متعلق پیمرا کی طرف سے جاری شدہ ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے سماعت میں پی بی اے، پیمرا، پاک سیٹ کے نمائندے اور درخواست گزار وقاص ملک عدالت میں پیش ہوئے پیمرا رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے کل 117 میں سے تین چینلز اذان نشر کررہے ہیں ڈی جی آپریشنز پیمرا نے کہا کہ ضابط اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے چینلز کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے پی بی اے کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ پی بی اے چینلز پیمرا آئین اور ضابطہ اخلاق کے تحت چل رہے ہیں، عدالت کوئی عمومی حکم جاری نہ کرے، پیمرا کو ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کیلئے ہدایات جاری کرے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ سحر اور افطار ٹرانسمیشن میں اچھل کود اور دھمال نہیں چلنے دیں گے، میں کوئی ایسا آرڈر نہیں کرتا جس پر عملدرآمد نہ کراسکوں، اچھل کود کا کلچر ڈاکٹر عامر لیاقت نے متعارف کرایا باقی سب شاگرد ہیں، ڈاکٹر عامر لیاقت، ساحر لودھی، فہد مصطفے اور وسیم بادامی باز نہ آئے تو تاحیات پابندی لگا دیں گے، کرکٹ میچ پر تجزیہ کرانے کیلئے بیرون ملک سے ایکسپرٹ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، اسلامی موضوعات پر بات کرنے کیلئے کرکٹرز اور اداکاروں کو بیٹھا دیا جاتا ہے۔عدالت نے حکم دیا کہ مارننگ شوز اور رمضان ٹرانسمیشن میں اسلامی موضوعات پر پی ایچ ڈی اسکالر سے کم کوئی بات نہیں کرے گا، مغرب کی اذان سے پانچ منٹ پہلے اشتہار نہیں بلکہ درود شریف یا قصیدہ بردہ شریف نشر کریں، پی ٹی وی کے 8 چینلز کو الگ سے ہدایات جاری کریں گے جسٹس صدیقی نے ریمارکس دیے کہ عجیب تماشا لگا ہے، حمد ،نعت اور تلاوت سب موسیقی کے ساتھ چل رہے ہیں، رپورٹ پیش کی جائے کہ پاکستان میں انڈین چینلز کون آپریٹ کررہا ہے، جو بھارت سے دوستی کی بات کرے اسے سیکیورٹی رسک قرار دیا جاتا ہے، اداروں کیخلاف بات سنسر ہوتی ہے تو دین کیخلاف کیوں نہیں ہوسکتی۔ اب اس فیصلہ پر پاکستان اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں نے اطمینان کا اظہار کیا خاص طور سنجیدہ طبقہ نے مختلف مواقعوں پر اس فیصلہ کو سراہا یہاں تک کہ حجام کی دکانوں اور چائے کے کھوکھوں پر بھی اس فیصلہ کو نیم خواندہ افراد کی بڑی تعداد نے سراہا ،ہو ا کیا جمعرات17مئی کو عدالت عالیہ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے 9 مئی کو سنائے گئے فیصلے کے خلاف پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کی اس موقع پر پی بی اے کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر جبکہ دوسری جانب سے سنگل بنچ میں درخواست گزار محمد وقاص ملک ایڈووکیٹ اور کرنل (ر) انعام الرحیم ایڈووکیٹ پیش ہوئے پی بی اے کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ پیمرا نے عدالت کے حکم پر حالیہ رمضان گائیڈ لائنزجاری کیں سنگل بنچ کا فیصلہ قانون و آئین سے متصادم ہے۔عدالت نے حکم میں کہا کہ فیصلے کی وجوہات بعد میں جاری ہوں گی۔سپریم کورٹ کے حکم کے تحت وجوہات دئیے بغیر آرڈر جاری نہیں ہو سکتا۔ ٹی وی چینلز کی پروگرامنگ چار ماہ پہلے ہوتی ہے۔ اس عمل میں اشتہاری پارٹیوں سے معاہدے شامل ہوتے ہیں۔ سنگل بنچ کے فیصلے سے چینلزکو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ عدالت نے غیر ملکی پروگرامز ، انعامی شوز اور تفریحی پروگراموں پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ غیر ملکی میڈیا کی سنسر شپ کے حوالے سے پیمرا کی کیا پالیسی ہے؟ غیر ملکی ڈرامے بہت اچھے ہوں گے مگر ہم اسلامی ملک ہیں،ہم نے اپنی روایات کو دیکھنا ہے۔ پیمرا نے بطور ریگولیٹر اپنا کردار ادا کیا ہوتا تو یہ معاملات عدالت میں نہ آتے بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ تمام چینلز خود ڈرامے و اشتہار سینسرکرتے ہیں وقاص ملک ایڈووکیٹ نے سنگل بنچ کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے اشتہارات اور ڈرامے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھے جاسکتے دوسری جانب وقاص ملک ایڈووکیٹ اور کرنل (ر) انعام الرحیم نے عدالت عالیہ کے سنگل بنچ کے فیصلے کے حق میں دلائل پیش کرتے ہوئے پی بی اے کی اپیل خارج کرنے کی استدعا کی فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے پیر کو سنائے جانے کا امکان ہے۔قارئین کرام !اب بات ہو جائے ایک اور روشن چہرہ دیکھانے کی کوشش کرنے والی تقریب کانز فیسٹول کی جس میں پاکستانی ایکٹرس نے شرکت کی اگرچہ اس سے پہلے بھی چند پاکستانی اداکاراس میلہ میں شرکت کر چکے ہیں وہاں بھی یہ ہی بات دہرائی گئی کہ ہم پاکستان کا روشن چہرہ دنیا کو دیکھانا چاہتے ہیں کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا روشن چہرہ دنیا کو دیکھانے کے لئے نیم برہنہ لباس زیب تن کر نا ضروری ہے؟ رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں اُچھل کود،لاٹری ،مخلوط کھیل کو اپنے میڈیا کے زریعے فروغ دے کر ہم اسلامی مملکت جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی اُسکا کونسا روشن چہرہ دنیا کو دیکھا رہے ہیں ؟؟
0 Comments